Language:

Search

میرے دل کے صنم (Episode 1)

  • Share this:

وہ گنگناتا  ہوا بہت ہی اچھے موڈ میں گھر میں داخل ہوا – سیدھا  ان کمرے کی طرف بڑھا – دستک دینے کے لئے ہاتھ اٹھایا ہی تھا کہ اندر سے آتی آوازوں نے اسے بت بن جانے پر مجبور کر دیا ...

"ڈیڈی ! پلیز ..." اس کی آواز کا لوچ اور اس میں بھری شہوت سے لبریز  التجا بہرے کو بھی سنائی دے جاتی ... 

"آپ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ میری سولہویں سالگرہ پر آپ میری خواہش پوری کریں گے" 

"اچھا؟؟؟ " مصنوعی حیرت اور شرارت سے بھری بھاری مردانہ آواز ابھری 

"میں نے کہا تھا ؟؟؟؟ کب ؟؟ کیسے؟؟؟ "

"ڈیڈی ...." وہ  زچ ہو کر ڈیڈی کو لمبا کھینچتے ہوئے بولی ... "میرے ساتھ ڈرامے نہ کریں ... آپ نے کہا تھا کہ میری پہلی بار آپ کے ساتھ ہو گی  تو بس آپ ہی کے ساتھ ہو گی ... چاہے کچھ بھی ہو جائے " اس کی آواز میں ضد ، ہٹ دھرمی اور غصہ سبھی کچھ تھا ...

"دیکھو  بچے ...." مردانہ آواز سنجیدہ ہو گئی ... "میں نے ایسے ہی نشے کی جھونک میں ، یا تم سے پڑھائی میں اچھی کار کردگی دکھانے کا وعدہ لینے کے لئے کہ دیا  ہو گا  ... اور اگر ..." 

"نشہ؟!؟!؟ ... کون سا نشہ؟؟؟... " وہ ان کی بات کاٹتے ہوئے بولی ...

" ڈیڈی!!! بندہ جھوٹ  وہ بولے ... جو پکڑا   نہ جائے ...پوری دنیا جانتی ہے کہ چوہدری اسفندیار وڑائچ  سگریٹ تک نہیں پیتا  

اور آپ مجھے نشے سنا رہے ہیں " ... اس کی آواز بتا رہی تھی کہ وہ شدید تپ چکی تھی ... اسی لئے اس نے ان کو پورے نام سے پکارا تھا 

"لسی وچ وی بوہت  نشہ ہندا اے پتر جی ... " ان کی آواز میں ایسا تدبر تھا کہ کیا ہی کسی پہنچے ہوئے بزرگ کی آواز میں ہو گا   - لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ ازلی شرارت بھی، جو ان کی آواز کا خاصہ تھی ...

"میں کچھ نہیں جانتی ... میری سالگرہ  آ چکی ہے اور آپ کی باتوں میں آ کر  پڑھ پڑھ کے میں ویسے ہی مرنے والی ہو گئی ہوں ... اس لئے بہانے چھوڑیں اور اپنا وعدہ پورا کریں"

"مس تبسم   جبران ملک !" وہ بھی اس کا پورا نام لیتے ہوئے  سنجیدگی  سے بولے 

"سالگرہ میں پورا ایک دن باقی ہے ... رزلٹ آنے میں ایک مہینہ باقی ہے ... اور ..."  وہ گہرا سانس لے کر رکتے ہوئے بولے ... "تمہاری ممی کو پتا چل گیا تو ہم دونوں اپنے  اپنے اعضائے مخصوصہ سے ہمیشہ کے لئے محروم  ہو جائیں گے " وہ سنجیدگی سے بات کرتے کرتے پھر پٹری سے اتر گئے ...

"یار ڈیڈی ... ڈرائیں نہ مجھے ... یہ ویسے بھی آپ کا مسئلہ ہے... آپ نے وعدہ کیا تھا  " وہ جیسے ٹھان چکی تھی کہ اپنی ضد منوا  کر ہی دم لے گی 

"یار ... یہ کیسی ضد ہے ؟  " آخر کار انہوں نے اس سے صاف صاف بات کرنے کا سوچا

"ڈیڈی ... جب سے آپ کو دیکھا ہے ... تب سے یہ چاہتی ہوں ... آپ کو بتا بھی دیا تھا...مجھے کوئی اور اتنا اچھا نہیں لگتا کہ اپنی اتنی قیمتی چیز ...اپنا کنوارپن...  اس کو سونپ سکوں ...

اور آپ ہی تو کہتے ہیں نا ... 'ہمیشہ دل کی سنو' ... اور میرا دل چاہتا ہے کہ میری سیل آپ کھولیں ..." وہ بولنے پر آئی تو بولتی چلی گئی ،کسی فلمی  ملکہ جذبات کی طرح ...

وہ ابھی تک دروازے کے باہر حیرت سے گنگ کھڑا تھا ... یہ باتیں سن کر اس کا دماغ چکرانے لگا ... اندر بحث اسی طرح جاری تھی 

"اور یہ دیکھیں ... صرف سوچ کے ہی اتنی بھیگ گئی ہوں کہ رانیں تک گیلی ہو گئی ہیں اور آپ ہیں کہ..." 

" اچھا بابا  ... ٹھیک ہے ... کرتے ہیں کچھ... ابھی یہ نیکر تو اوپر کرو یار..." وہ ہار مانتے ہوئے بولے ... "اتنی چھوٹی سی چوت  دیکھ کے  ہی کچھ ہونے لگتا ہے " ان کی آواز میں بھی شہوت کی گونج ابھرنے لگی تھی.

اور یہ شاید  یہی اس کی برداشت کی حد تھی...اس نے وہاں سے ہٹ جانا چاہا ... وہ چکرایا ... اس نے دیوار کا سہارا لینا چاہا ... مگر اس کا ہاتھ دروازے سے جا ٹکرایا ... کافی تیز آواز  ابھری اور اندر خاموشی چھا گئی ... دروازہ ٹھیک سے بند نہیں تھا اس لئے تھوڑا سا کھل گیا – اس نے ایک لمحے کے لئے سوچا اور پھر غصے کی ایک تیز لہر  اس کے اندر اٹھی اور وہ دروازے کو زور سے دھکیل کر اندر داخل ہو گیا .

Quratulain Tahira

Quratulain Tahira