فیصل کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ وہی شنکر ہے جس کے ساتھ وہ اسکول میں پڑھتا ہے. وہی شنکر جس کے ساتھ وہ کھیلتا ہے، جس سے اپنی ہر بات شیر کرتا ہے. کرتار سنگھ تو تھا ہی بدمعاش ٹائپ لیکن شنکر سے ایسی امید نہیں تھی.
امید تو خیر اسے اپنی والدہ سے بھی نہیں تھی کہ وہ شنکر اور کرتار سنگھ کے ساتھ مل کر اسے ذلیل کریں گی لیکن وہ کر بھی کیا سکتا تھا. والدہ سے بد تمیزی کا تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا اور شنکر اور کرتار سنگھ کو کچھ کہتا تو والدہ اسے ہی روک دیتیں. بے عزتی کروانے سے بہتر یہی تھا کہ کسی طرح وقت گزارا جاۓ.
شنکر اور کرتار سنگھ فیصل کی والدہ کے ساتھ جڑ کر بیٹھے ہوے تھے اور باتوں کے ساتھ ساتھ ان کے جسم سے بھی کھیل رہے تھے. فیصل کی والدہ دو ہاتھوں کو اپنے جسم پر پا کر خوب مزے لے رہی تھیں. ہلکی ہلکی سسکیوں میں جب وہ کھلکھلا کر ہنستیں تو فیصل کے دل کے تار ہل جاتے اور وہ سوچتا کاش اس کی پیاری سیکسی والدہ شنکر اور کرتار سنگھ کی بجاۓ اس سے پیار کرتیں لیکن ایسا ہونا درحقیقت نا ممکن تھا کیونکہ سب سے بڑی وجہ تو فیصل کی چھوٹی سی للی تھی اور دوسری بات یہ کہ شنکر اور کرتار سنگھ کے ہوتے ہوے فیصل سے بطور ایک رومانوی اور جنسی پارٹنر کے تعلقات استوار کرنا محض ایک بیوقوفی ہی ہوتی.
شنکر اور کرتار سنگھ اس کی نظروں کے سامنے اس کی والدہ کے جسم سے کھلواڑ نا صرف جاری رکھے ہوے تھے بلکہ اب تو ہر قسم کی شرم کو بالاۓ طاق رکھتے ہوے کھل کر کبھی اس کی والدہ کی پھدی میں انگلیاں گھسا رہے تھے تو کبھی ان کے نپلز کو نوچ رہے تھے، چوس رہے تھے، کاٹ رہے تھے. فیصل کی والدہ کی سسکیاں اب بلند ہوتی جا رہی تھیں. صاف نظر آ رہا تھا کہ ان تینوں کو فیصل کی کوئی پرواہ نہیں. فیصل کبھی نظریں جھکا لیتا تو کبھی انہیں دیکھنے لگتا. وہ صوفے کے پہلو کے ساتھ نیچے فرش پر ننگا بیٹھا ہوا تھا. فرش کسی حد تک سرد ہونے کی وجہ سے اس کا جسم بھی ٹھنڈا تھا اور باوجود اپنی والدہ کو شنکر اور کرتار سنگھ کے ہاتھوں استعمال ہوتا دیکھ کر، اسکی للی کھڑی نا ہی. شائد وہ روہانسا ہو رہا تھا لیکن ابھی تک آنسو نہیں نکلے تھے.
کچھ دیر تک اس کی والدہ، شنکر اور کرتار سنگھ کے درمیان یہ چوما چاٹی چلتی رہی. پھر شائد ان دونوں کو سمجھ آ گئی کے فیصل کی والدہ خوب گرم ہو چکی ہیں تو وہ دونوں پیچھے ہٹ کر فیصل کی والدہ کو پوزیشن میں لانے لگے تاکہ چود سکیں. فیصل کی والدہ صوفے پر دونوں پاؤں رکھ کر کتیا کی پوزیشن میں آ گیں اور کرتار سنگھ ان کے پیچھے آ کر اپنا لن ان کی پھدی کے دہانے پر مسلنے لگا. قریب تھا کہ وہ اپنا بڑا سا لن فیصل کی والدہ کی پھدی میں گھسا ڈالتا کہ شنکر نے اسے روک دیا. فیصل سمجھا شائد وہ خود پہلے چودنا چاہتا ہے لیکن جب شنکر نے فیصل کو مخاطب کیا تب اسے سمجھ آی کہ روکنے کا اصل مقصد کیا ہے.
شنکر نے فیصل کو قریب بلایا اور صوفے پر لیٹنے کو کہا جہاں اس کی والدہ پہلے ہی کتیا کی پوزیشن بناۓ چدنے کے انتظار میں کھڑی تھیں. ظاہر ہے فیصل نے تو جھجھکنا ہی تھا. شنکر کو البتہ اس کی جھجھک کچھ زیادہ پسند نہیں آئ. اس کے چہرے سے ہی غصہ عیاں تھا لیکن فیصل کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ صوفے پر کہاں لیٹے، جگہ تو تھی ہی نہیں.
شنکر نے فیصل کی والدہ کی ٹانگیں دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر تھوڑی سی پھیلا دیں اور فیصل کو اشارہ کیا جیسے کہہ رہا ہو کہ نیچے گھسو. اب فیصل کو سمجھ آ گئی کہ وہ کیا کہنا چاہ رہا تھا. فیصل نے کوشش کی لیکن شنکر کو لگا جیسے وہ سستی کا مظاھرہ کر رہا ہے. اس نے فیصل کی والدہ کو بازو سے پکڑ کر نیچے کھڑی کر دیا اور فیصل کو کو لیٹنے کا اشارہ کیا. فیصل جھٹ سے لیٹ گیا. پھر فیصل کی والدہ شنکر کی ہدایت کے مطابق فیصل کے اوپر چڑھ کر ایسے پوزیشن میں آ گئیں کہ فیصل کے چہرے کے بلکل اوپر ان کی پھدی جب کہ ان کے چہرے کے بلکل نیچے فیصل کا لن بلکہ للی تھی. اپنی والدہ کی پھدی اس قدر قریب سے دیکھنے پر فیصل کی للی میں ایک دم جان آ گئی. فیصل کی والدہ کی نظریں اسکی للی پر ہی تھیں اور سچ تو یہ ہے کہ انہیں افسوس ہو رہا تھا کہ کیسے کمزور انسان کو انہوں نے جنم دیا تھا. کاش ان کا بیٹا بھی کوئی شنکر جیسا طاقتور انسان ہوتا لیکن اس میں ان کا قصور اتنا نہیں تھا جتنا فیصل کے مرحوم باپ کا تھا. ابھی وہ یہ سب سوچ ہی رہی تھیں کہ کرتار سنگھ بھی صوفے پر چڑھ گیا اور فیصل کے چہرے اور آنکھوں کے بلکل سامنے اپنا لن اس کی والدہ کی پھدی میں گھسانے لگا. فیصل ہکا بکا رہ گیا جب اس نے کرتار سنگھ کا موٹا لن اپنی والدہ کی پھدی میں جاتے دیکھا. پھدی بہت گیلی تھی اسلئے کرتار سنگھ کو زیادہ دقت نہ ہوئی اور اس کا لن پورا کا پورا اندر چلا گیا.
جس لمحے کرتار سنگھ کا لن فیصل کی والدہ کی پھدی میں گیا، وہ اس لمحے فیصل کے والد کا سوچ رہی تھیں اور کرتار سنگھ کے یوں اچانک سے لن گھسانے سے ان کے منہ سے نکل گیا "بہن چود"
کرتار سنگھ ان کے منہ سے گالی سن کر اور جوش میں آ گیا اور بہت تیزی سے انہیں چودنے لگا. پھدی کا گیلا پن، کرتار سنگھ کے لن کے اندر باہر ہونے کی چھپ چھپ کی آوازیں اور اپنی والدہ کی پھدی سے گرنے والے قطروں نے فیصل پر ایک عجیب سا جادو کر دیا تھا. چونکہ قطرے اس کے چہرے پر گر رہے تھے اس لئے اس نے منہ کھول لیا تاکہ کچھ قطرے سیدھے منہ میں جایئں اور وہ اپنی والدہ کی پھدی کو دور سے ہی چکھ تو سکے.
دوسری جانب شنکر نے جب دیکھا کہ کرتار سنگھ تو بس ہی نہیں کر رہا تو وہ سامنے کی طرف سے آ کر فیصل کی والدہ کے سامنے کھڑا ہو گیا. فیصل کی والدہ خوب سمجھتی تھیں کہ انہیں کیا کرنا ہے. انہوں نے ہاتھ سے شنکر کا کالا ناگ نما لن پکڑا اور کسی لالی پاپ کی طرح چوسنے لگیں. شنکر نے انہیں بالوں سے پکڑ لیا اور ان کا منہ اپنے لن پر آگے پیچھے کرنے لگا. جلد ہی ان کے منہ سے رال بہنے لگی اور فیصل کی للی پر گرنے لگی. فیصل کو للی پر نمی کا احساس تو ہو رہا تھا لیکن اس کی توجہ اپنے بلکل سامنے والے نظارے پر تھی. کرتار سنگھ کا لن اس کی والدہ کی پھدی میں کسی مشین کی سی تیزی سے اندر باہر ہو رہا تھا. کرتار سنگھ شائد ایسے ہی فیصل کی والدہ کو کتیا بنا کر چودتا رہتا لیکن پھدی میں چکناہٹ کی زیادتی کی وجہ سے اس کا لن پھسلنے لگا. دراصل وہ تقریباً پورا لن باہر نکل کر پھر دھکہ لگاتا تھا جس سے لن پھسل رہا تھا. ایسے ہی ایک دھکے میں کرتار سنگھ نے لن باہر نکالا اور جب دھکا لگانے کی غرض سے زور لگایا تو لن پھدی کے باہری کنارے کو چھوتا ہوا نیچے کی جانب مڑ گیا جہاں فیصل منہ کھولے پڑا تھا. فیصل کو تو اس کی توقع ہی نہیں تھی لہٰذہ وہ ایکدم گڑبڑا گیا جب کرتار سنگھ کا لن پوری قوت سے اس کے حلق میں گھس گیا. کرتار سنگھ نے لن فورا باہر نکال لیا لیکن فیصل ذائقہ چکھ چکا تھا. چند سیکنڈز میں ہی یہ سب کچھ ہو گیا تھا اور اب کرتار سنگھ پھر سے فیصل کی والدہ کو بے دردی سے چود رہا تھا. ساتھ ہی ساتھ ان کے نرم و گداز چوتڑوں پر اپنے ہاتھوں کے نشان بھی چھاپتا جا رہا تھا.
فیصل کی والدہ کا حسن تھا، ان کے جسم کی کشش تھی یا پھر شنکر یا کرتار کے لئے کسی مسلمان بیوہ کو اس کے بیٹے کے سامنے چودنے کی لذت، جو بھی تھا وہ دونوں کچھ دیر میں ہی ڈسچارج ہونے کے قریب پہنچ گئے. فیصل نے قطروں کی صورت میں اپنی والدہ کی پھدی سے ٹپکنے والی نمی کا ذائقہ چکھ تو لیا تھا لیکن جب کرتار سنگھ اس کی والدہ کی پھدی میں اس کی نظروں کے اتنے قریب ڈسچارج ہوا تو لن کا یوں پھڑکنا دیکھ کر جیسے وہ مسحور ہو کر رہ گیا. کرتار سنگھ نے اس کی والدہ کی پھدی میں اپنی منی خارج کر دی اور لن جیسے ہی باہر نکالا تو فیصل کے منہ پر گر پڑا. کرتار سنگھ نے ہاتھ سے پکڑ کر لن سے فیصل کے منہ پر ایک اور تھپڑ لگایا اور پیچھے ہٹ گیا. فیصل کی والدہ اسی پوزیشن میں رہیں کیوں کہ شنکر ابھی ان کے منہ کو چود رہا تھا. وہ بھی ڈسچارج ہونے کے قریب تھا. کرتار سنگھ کے پیچھے ہٹنے سے فیصل کی والدہ کی پھدی میں سے اس کی منی بہہ کر باہر آنے لگی. فیصل کو معلوم تھا کہ یہ کسکی منی ہے لیکن وہ اتنا گرم تھا کہ اس نے منہ کھول دیا. قطرہ قطرہ کر کے منی فیصل کے منہ میں گرنے لگی.
کرتار سنگھ سامنے والے صوفے پر بیٹھ کر شنکر کو فیصل کی والدہ کا منہ چودتے دیکھنے لگا. شنکر نے بال پکڑ رکھے تھے اور ایسے چود رہا تھا جیسے منہ نہ ہو بلکہ پھدی ہو. فیصل کی والدہ کے منہ سے اوغ اوغ کی آوازیں نکل رہی تھیں. تقریباً ایک یا دو منٹ کی بے رحم بلو جاب کے بعد شنکر نے ان کے منہ میں ہی منی نکال دی. آدھی سے زیادہ منی تو لن حلق میں ہونے کی وجہ سے سیدھی پیٹ میں اتر گئی. البتہ بعد والے جھٹکوں سے جو منی نکلی اس کے چند قطرے نیچے فیصل کے لن پر بھی گر گئے. فیصل کی والدہ نے وہ قطرے بھی چاٹ لئے. محض چند لمحات کے لئے فیصل کی والدہ کی زبان ان کے بیٹے کی للی سے مس ہوئی لیکن فیصل کے لئے یہی کافی تھا. اس نے چہرہ اوپر کر کے اپنی والدہ کی پھدی کو بوسہ دیا اور اس ہی لمحے اس کی للی سے منی کا چھوٹا سا فوارہ نکل گیا. صرف دو جھٹکوں میں ہی منی نکل گئی ساری.
فیصل کی والدہ صوفے سے اتر کر شنکر اور کرتار سنگھ کے ساتھ بیٹھ گئیں جب کہ فیصل کچھ دیر ایسے ہی پڑے رہنے کے بعد اٹھ کر باتھ روم کی طرف چلا گیا.
شنکر اور کرتار سنگھ کے ساتھ اپنے بیٹے کے سامنے پوری رات کسی رنڈی کی طرح چدنا محض آغاز تھا. فیصل کی آنکھوں کے سامنے اس کی والدہ بتدریج ایک بے شرم طوائف میں تبدیل ہوتی چلی گیں اور فیصل نا صرف بے غیرت بن کر اپنی مسلمان والدہ کو ایسے ہندو مردوں کی رکھیل بنتے دیکھتا رہا بلکہ چھپ چھپ کر مٹھ بھی مارتا رہا. شنکر اور کرتار سنگھ نے فیصل کی والدہ کو خوب قابو کر کے رکھا. کوئی دن ایسا نا گزرتا جب وہ دونوں یا ان میں سے ایک فیصل کے گھر آ کر اس کی والدہ کو نا چودتا. فیصل کو موجودگی غیر معنی تھی. کسی کو بھی اس کی پرواہ نا تھی. اس کی اپنی والدہ کو بھی. جب وہ اپنی والدہ کے ہمراہ گھر میں اکیلا ہوتا تو بھی اس کی والدہ اس کی طرف سے بے پرواہ ہوتیں. گھر میں بغیر کپڑوں کے ننگی گھومتیں. گھر کے کام کرتیں اور جیسے ہی دروازے کی گھنٹی بجتی، لپک کر کھولتیں. شنکر یا کرتار سنگھ ہوتے تو وہیں لپٹ جاتیں اور بغیر وقت ضایع کئے فیصل کے دوستوں کی اپنے جسم سے سیوا کرتیں. فیصل ایک کونے میں دبکا دیکھتا رہتا اور پینٹ میں ہاتھ ڈال کر اپنی للی ہلاتا رہتا.
کبھی کبھی یوں ہوتا کہ فیصل دروازہ کھولتا تو شنکر یا کرتار سنگھ اسے ہاتھ سے پیچھے دھکیل کر اندر داخل ہو جاتے اور فیصل کی والدہ کو جہاں بھی دیکھ پاتے وہیں پکڑ لیتے اور چود ڈالتے. فیصل کی والدہ برتن دھو رہی ہوتیں تو پیچھے سے چودنا شروع کر دیتے اور اپنی پاس بجھا کر چلتے بنتے. وہ کپڑے دھو رہی ہوتیں یا صفائی کر رہی ہوتیں یا کوئی اور کام، شنکر اور کرتار سنگھ کو پرواہ نہیں تھی، وہ بس انہیں ایسے استعمال کرتے جیسے فیصل کی والدہ ان کی ذاتی زرخرید غلام ہوں.
منشی پریم چند کا سلسلہ بھی یونہی جاری تھا. وہ اپنا قرضہ وصول کرنے بلا ناغہ تشریف لاتے اور فیصل کی والدہ کو ننگی دیکھ کر سود سمیت قرضہ وصول کرتے. ایک آدھ مہینے تک یونہی سلسلہ چلا، پھر شنکر اور کرتار سنگھ کے ہمراہ مزید لوگ گھر آنے لگے. ہر عمر کے مرد. کالج کے لڑکے، شادی شدہ مرد، بزنس مین، جمعدار، سوامی، مولوی ہر طرح کے لوگ آتے، فیصل کی والدہ کو چودتے اور چلتے بنتے. فیصل نے پوچھنا بھی ضروری نا سمجھا. وہ چپ سادھے مزے لیتا رہا اور وقت گزرتا رہا. دسویں کا امتحان قریب تھا اسلئے زیادہ تر وقت کمرے میں پڑھائی میں گزارتا لیکن جب والدہ کی لذت بھری آوازیں سنائی دیتیں تو ایک نظر انہیں دیکھ آتا اور کمرے میں آ کر ایک زوردار مٹھ مارتا. اس کا رہا سہا پچھتاوا یا احساس گناہ ختم ہو گیا تھا. اسے اچھی طرح علم ہو گیا تھا کہ اس کی والدہ ایک جسم فروش طوائف بن گئی ہیں اور شنکر اور کرتار سنگھ کے ساتھ مل کر اپنا جسم بیچ رہی ہیں. شنکر سے دوستی اب ختم ہو کر رہ گئی تھی. اسکول میں بھی لڑکے فیصل کو عجیب نظروں سے دیکھتے تھے. کتنے ہی لڑکے ایسے تھے جنہیں وہ اپنی والدہ کے ساتھ ننگا دیکھ چکا تھا. لیکن فیصل سب کچھ برداشت کرتا رہا.
کتنے کم وقت میں اس کی والدہ ایک پاکیزہ مسلمان بیوہ عورت سے ایک رنڈی بنی تھیں، فیصل ماضی پر نظر دوڑاتا تو یہ سوچنے لگتا اور پھر سارے واقعات اس کی نظروں کے سامنے گھوم جاتے. بے اختیار اس کا ہاتھ اپنی للی پر چلا جاتا اور وہ رگڑنے لگتا. والدہ کے نام کی نا جانے کتنی مٹھ مار چکا تھا.
فیصل کو نہیں لگتا تھا کہ یہ سلسلہ کہیں رکے گا کیوں کہ اس کی والدہ خوب مزے میں تھیں. شنکر اور کرتار سنگھ کے ساتھ خوب ہنستی کھلکھلاتی، ان کے لئے کھانے بناتیں، ان کے ساتھ باتیں کرتیں، اور سیکس تو تھا ہی. ہر ہفتے وہ فیصل کی والدہ کو ہفتے بھر کی کمائی لا کر دیتے جو بڑھتی جا رہی تھی. فیصل کی والدہ دولت مند ہوتی جا رہی تھیں. گھر سے باہر اب بھی حجاب میں جاتیں لیکن محلے میں سب کو معلوم تھا کہ ان کا پیشہ کیا ہے. کوئی بھی انہیں کچھ نہیں کہتا تھا کیوں کہ ان کے پاس پیسا تھا. سب کو خوش رکھتی تھیں. آہستہ آہستہ گھر میں بھی تبدیلیاں آنے لگیں. جسم فروشی اپنی جگہ لیکن فیصل کی والدہ ہر مذہبی تہوار جوش و خروش سے منتیں، گھر میں میلاد ہوتے، محفل قوالی ہوتی، قران خوانی ہوتی، لنگر بانٹا جاتا اور پھر رات کو ان کا کوئی گاہگ گھر آ کر ان کے جسم سے کھلواڑ کرتا، ان کے جسم کو نوچتا، انہیں چودتا اور چلا جاتا. فیصل سوچتا تھا کہ اس کی والدہ اب تک حاملہ کیوں نہیں ہوئیں جب کہ اکثر افراد ان کی پھدی میں ہی ڈسچارج ہوتے تھے. یقیناً شنکر یا کرتار سنگھ نے انہیں مانع حمل گولیاں لا کر دی ہوں گی.
بہرحال، اپنی والدہ کی زندگی تبدیل ہوتے دیکھ کر فیصل نے فیصلہ کیا کہ وہ ایسے زندگی نہیں گزارنا چاہتا. ایک وہ چپکے سے اٹھا اور اپنا سامان پیک کر کے ریلوے سٹیشن پہنچ گیا. جو چند پیسے اس نے ٹیوشن سے کماے تھے، ان سے دور دراز شہر کا ٹکٹ خریدا اور نیے سفر پر روانہ ہو گیا. اسے یقین تھا کہ والدہ کو اس کی یاد نہیں اے گی لیکن اسے یہ بھی یقین تھا کہ وہ کبھی اپنی والدہ کو نہیں بھلا پاے گا. ان کی معصومانہ ادائیں، ان کا والہانہ پیار اور بعد میں ان کا رنڈی پنا. کچھ بھی نہیں بھول سکے گا.